قرآن مجید تئیس سال کے طویل عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوا۔ جو اکثر حالات و واقعات و حاجات کے مطابق ہوتا تھا۔ جن حالات و واقعات، استفسارات و اعتراضات وغیرہ کے جواب میں قرآن کی جو آیات نازل ہوئی ۔ وہ وجہ یا سبب ہی ان آیات  کا شان نزول یا سبب نزول کہلاتا ہے۔  اور بطور اصطلاح "اسباب نزول" کہا جاتا ہے کیونکہ سبب کی جمع اسباب ہے ۔

ڈاکٹر شہزا داقبال شان نزول کی بابت اپنی کتاب اسلامی قانون میں کچھ ان الفاظ میں رقمطراز ہیں:

’’حضرت محمد رسول اللہ (ﷺ) پر قرآن مختلف مناسبت اور مختلف مقامات پر کہیں کسی حادثہ کی خبر پر،تو کبھی لوگوں کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات میں تدریجی طور پر نازل ہوا ان تمام واقعات کو اسبابِ نزول سے یا”شان نزول“سے تعبیر کیا گیا ہے-جس موقع کی نسبت سے کوئی آیت نازل ہو ،اسے شانِ نزول کہتے ہیں ۔ (اسلامی قانون ایک تعارف،ڈاکٹر شہزاد اقبال، ج:۱،ص:۴۸)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰـہُ لَتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنٰـہُ تَنْزِیْلاً(الاسراء:106)

اور قرآن کو ہم نے جدا جدا کرکے اتارا تاکہ آپ اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں اور ہم نے اسے رفتہ رفتہ (حالات اور مصالح کے مطابق) تدریجاً اتارا ہے۔

اس آیت کی تفسیر  میں حضرت علامہ قاضی ثناء اللہ ؒ فرماتے  ہیں کہ:

’’ہم نے اسے (وحی کو) واقعات وحادثات کے مطابق تھوڑا تھوڑا اتارا‘‘(تفسیرمظہری،علامہ قاضی محمد ثناء اللہ پانی پتی،ج:5،ص:576)

قرآن مجید کے نزول کامختلف مواقع پراتارے جانے کے بارے میں  (مفسر قرآن )حافظ عماد الدین  ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ:

’’فَرقنا‘‘تخفیف کے ساتھ ہو تو اس کا معنی یہ ہو گا کہ ہم نے قرآن کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے بیت العزت پر نازل فرمایا ،پھر تیئس (۲۳) سال کے عرصے میں حالات و واقعات کے مطابق اسے قسط وار رسول اللہ (ﷺ) کی طرف اتارا‘‘- (تفسیر ابنِ کثیر،ج:3،ص:121)

قرآن کی آیات کو سبب نزول کے حوالے سے دو قسموں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے:

اول: وہ آیات جو کسی حادثہ اور سبب ظاہری کے بغیر اللہ ہی نے مصالح و مقاصدجلیلہ کی بنا پر نازل کیں ہیں جیسے سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات سب سے پہلے نازل شدہ آیات ہیں جس کے نزول کےلئے مصالح اورمقاصد باطنی کے سوا کوئی سبب خارجی نظر نہیں آتا ۔جیسا کہ ڈاکٹر صبح صالح اس بات کی تائید کرتے ہیں:

"اس میں شبہ نہیں کہ ایسی تاویل و تفسیر مفسر کو اسباب نزول کے سلسلہ میں تگ و دو کرنے سے نجات دیتی ہے۔ اس سے یہ حقیقت بھی منکشف ہوتی ہے کہ قرآن کی بعض سورتیں اور آیتیں بلااسباب بھی نازل ہوئی ہیں۔ عقل و منطق سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے یا یوں کہیے کہ عقل  و منطق کا تقاضا ہے کہ آیات کا ایک عام سبب ہوناچاہئےجس کو سبب حقیقی قرار نہیں دے سکتے۔ مثلا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ قرآن میں متعدد جگہ مختلف الفاظ میں وارد ہوا ہے۔ ظاہر ہےوہ ابتداء بلا اسباب نازل ہوا ہے۔ مزید برآں جو ان کے لئے سبب تلاش کرنا چاہے گا وہ ان سب واقعات کے لئے ایک ہی عام سبب کی نشان دہی کرے گا اور وہ یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا متعدد جگہ بیان کرکے آنحضور ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ ایسے حوادث میں متفکر نہ ہوں۔"(علوم القرآن،ڈاکٹرصبحی صالح:ص 205)

علامہ غلام رسول سعیدی ؒ تحریر فرماتے ہیں:

’’ایک قرآن مجید کا وہ حصہ جو بغیر کسی سوال یا حادثہ  کے نازل ہوا،ایسی آیات اکثر و بیشتر ماضی کے واقعات،مختلف انبیاء (علیہم السلام)اورسابقہ امتوں کے واقعات،مستقبل میں پیش آنے والے واقعات و حالات، آخرت کے متعلق،اجر و ثواب کی نوید و وعید والی آیات اور وعید پر مبنی یعنی  عذاب  کی آیات سے تعلق رکھتی ہیں-قرآن کا یہ  حصہ بغیر  کسی سوال یا سبب کے نازل ہوا-گویا سارا قرآن  ہدایت کا منبع ہے،لیکن قرآن مجید میں ایک ایسی آیات کی  اچھی خاصی تعداد موجود ہے جن کو اتارنےکی غرض مخلوق خدا کو سیدھی راہ دکھاناہے یہ کسی واقعے کی طرف راہنمائی یا اشارہ نہیں کرتی لیکن یہ آیات سیاق و سباق کے ساتھ ربط اور   متصل ضرور ہیں، مگر کسی سوال کے جواب میں نازل نہیں ہوئی ‘‘۔(تبیان القرآن، جلد:1، ص:86)

دوم: کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی حادثہ اور سبب ظاہری کی وجہ سے نازل کی گئی ہیں جیسے سورہ برأۃ سورہ منافقون وغیرہ ۔ یا پھر کچھ آیات اس طرح کی ہیں جو کسی سوال و جواب کی وجہ سے نازل ہوئی ہیں۔جیسے سورہ یوسف یا  سورہ کہف وغیرہ

حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں :یہود نے آنحضور ﷺ سے ذوالقرنین کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔

وَيَسْأَلُونَكَ عَن ذِي الْقَرْنَيْنِ ۖ قُلْ سَأَتْلُو عَلَيْكُم مِّنْهُ ذِكْرًا (83) (علوم القرآن،ڈاکٹرصبحی صالح:ص 206)

 بلاشبہ قرآن پاک تدریجاً بحسبِ الحوائج نازل ہوا ہے ۔ قرآن کا اکثر حصہ تو وہ ہے جو ابتداء موعظت وعبرت یا اصولِ دین اور احکامِ تشریع کے بیان میں نازل ہوا ہے لیکن قرآن کا کچھ حصہ وہ ہے جو کسی حادثہ یا سوال کے جواب میں اُترا ہے۔ علماء نے ان حوادث  یا سوالات کو اَسباب سے تعبیر کیا ہے ۔ (الجامع لأحكام القرآن(القرطبی): 1 : 39)

 علامہ غلام رسول سعیدی اس  نکتہ کو قرآن کا دوسرا حصہ قرارد یتے ہیں۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:

’’دوسرا قرآن مجید کا وہ حصہ جس کے نزول کا سبب، کوئی سوال،واقعہ،حادثہ اوراعتراضِ مشرکین ہو-تو ان امور کےجواب میں یہ آیات نازل ہوئیں-بعض اوقات ایک آیت کے متعدد اسباب ہوتے ہیں اور بعض اوقات ایک سبب کی وجہ سےمتعدد آیات نازل ہوتی ہیں اور ہر چند کہ آیت کسی خاص مورد اور واقعہ میں نازل ہولیکن جمہور آئمہ اور مفسرین کے نزدیک خصوصیت مورد کی بجائے عموم الفاظ کا اعتبار کیا جاتا ہے‘‘۔ (تبیان القرآن، جلد: 1، ص: 86)

اسباب نزول کا اختلاف  باعتبار قسم وحی

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  ؒ فرماتے ہیں : قرآن صرف لوکوں کے نفسوں کی تہذیب اور ان کے باطل عقائد اور فاسد اعمال کی اصلاح کے لیے نازل ہوا ہے۔ لہذا مختلف قسم کی آیات کے اسباب نزول بھی مختلف ہیں۔ مثلا:

 آیات مخاصمہ کے نزول کا سبب، لوگوں کے عقائد باطلہ ہیں۔

 آیات احکام کے نزول کا سبب، لوگوں کے فاسد اعمال اور ان کے درمیان مظالم کا رواج ہے۔

 آیات تذکیر کے نزول کا سبب یہ ہے کہ لوگ اللہ تعالٰی کی نشانیوں کی طرف سے بے توجہی اور لاپروائی برتتے تھے۔

 آیات تذکیر بالموت و مابعد، میں موت اور موت کے بعد کے حالات بیان کرنے کا سبب یہ ہے کہ لوگ حشر و نشر میں شکوک و شبہات رکھتے تھے۔

اسباب نزول کی اہمیت:

بہرحال اسبابِ نزول کے علم سے چونکہ آیت کا پس منظر سمجھ آتا ہے اور آیت کے سبب سے جہالت بسا اوقات حیرت کا موجب بنتی ہے۔جیسا کہ ایک آیت مبارکہ ہے

وَلِلّـٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَاَيْنَمَا تُـوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّـٰهِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ وَاسِعٌ عَلِيْـمٌ (البقرۃ:1115)

اورمشرق اور مغرب اللہ ہی کا ہے، سو تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کا رخ ہے، بے شک اللہ وسعت والا جاننے والا ہے۔

"اگر اس آیت کا شان نزول پیش نظر نہ ہو تو اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں کسی خاص جہت کی طرف رخ کرنا ضروری نہیں ، مشرق و مغرب سب اللہ کی ملکیت میں ہیں اور وہ ہر سمت میں موجود ہے ، اس لئے جس طرف بھی رخ کرلیا جائے تو نماز ہوجائے گی۔ حالانکہ یہ مفہوم بدیہی طور پر غلط ہے ، خود قرآن کریم ہی نے دوسرے مقام پر کعبہ کی طرف رخ کرنے کو ضروری قراردیا ہے۔ یہ عقدہ صرف چان نزول کو دیکھ کر ہی حل ہوتاہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف تبدیل ہوا تو یہودیوں نے اعتراض کیا کہ اس تبدیلی کی کیا وجہ ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر سمت اللہ کی بنائی ہوئی ہے  اور اللہ ہر طرف موجود ہے لہذا وہ جس طرف بھی رخ کرنے کا حکم دے دے ادھر رخ کرنا واجب ہے اس میں قیاسات کو دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔"(علوم القرآن،شیخ الاسلام علامہ  محمدتقی عثمانی، ص80)

اسبابِ نزول و تالیف کتب

اسبابِ نزول کی معرفت کو علم تفسیر میں خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور علماء نے علومِ قرآن پر جو کتابیں لکھی ہیں اُن میں اسبابِ نزول کے عنوان کو مستقل طور پر ذکر کیا ہے بلکہ خالصتاً اسبابِ نزول پر بھی کتابیں مرتب کی ہیں۔

 جلال الدین سیوطی﷫ الاتقان میں لکھتے ہیں :

 "أفرده بالتّصنیف جماعة أقدمهم علي ابن المديني شیخ البخاريّ." (الاتقان،امام سیوطی: 1 : 34)

 کہ علما نے اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی تالیف کی ہیں اور اس باب میں سب سے پہلی تصنیف علی بن مدینی کی ہے جو امام بخاری کے شیخ ہیں۔

 اسی طرح سیوطی﷫ نے اس سلسلہ کی تالیفات کا ذکر کرتے ہوئے ابو الحسین علی بن احمد واحدی (468ھ) کی تالیف(التبيان فی علوم القرآن،شیخ محمد علی الصابونی: ص17 ؛ التّحبير في علم التفسير،امام سیوطی: ص173 ؛ مناهل العرفان،شیخ محمد عبدالعظیم الزرقانی: 2 : 31)کو مشہور ترین قرار دیا ہے۔ امام سیوطی﷫ نے خود بھی اس موضوع پر ایک کتاب تالیف کی ہے جس کے متعلق لکھتے ہیں: "وألفت فیه تألیفا موجزا لم یؤلّف مثله في هذا النوع سمّیته لباب النقول في أسباب النزول." (الإتقان،امام سیوطی: 1 : 87) کہ اس موضوع پر میری بھی ایک یگانہ روزگار تالیف ہے جس کا نام میں نے لباب النقول فی اسباب النزول رکھا ہے ۔

شان نزول کی حیثیت

 بہرحال اسبابِ نزول کی اہمیت کے پیش نظر علما نے اس کو مستقل فن کی حیثیت دی ہے اور اس پر کتابیں بھی تالیف کی ہیں ۔ مفسرین نے اپنی تفاسیر میں اسباب کے بیان کا اہتمام کیا ہے۔

 شاہ ولی اللہ﷫ (1762م)نے اپنے رسالہ الفوز الکبیر میں اس کی معرفت کو المواضع الصّعبة (مشکل مقامات)سے شمار کیا ہے۔ اور وہ فرماتے ہیں:

البتہ مفسر کے لئے دوباتوں کا جاننا لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے، ایک تو وہ واقعات جن کی طرف آیات میں اشارہ پایا جاتاہے، اور جب تک وہ قصے معلوم نہ ہوں آیات کے اشاروں کو سمجھنا آسان نہیں، دوسرے کسی قصہ وغیرہ میں بعض اوقات الفاظ عام ہوتے ہیں لیکن شان نزول سے اس میں تخصیص پیدا ہوتی ہے یا کلام کا ظاہری مفہوم کچھ ہوتاہے اور سبب نزول کوئی دوسرا مفہوم متعین کرتا ہے ، اس جیسی روایات کا علم حاصل کئے بغیر آیات قرآنی کو سمجھنا مشکل ہے۔"(الفوز الکبیر فی اصول التفسیر، امام شاہ ولی اللہ،ص23)

امام سیوطی﷫ کا نکتہ نظر بہت سخت ہے وہ اس فن کی معرفت کے بغیر تفسیر قرآن پر اِقدام کو حرام قرار دیتے ہیں ۔ اور فرماتے ہیں قرآن مجید کا فہم وتفسیر سبب نزول کی معرفت کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ جو امور، حالات اور واقعات کسی آیت کے نزول کا سبب بنے یا جن حالات کے پیشِ نظراس کا نزول ہوا ان سے واقفیت بےحد ضروری ہےکہ یہ آیت کس حادثہ یا کس سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہے۔

علامہ ابن تیمیہ﷫ فرماتے ہیں :

 "معرفة سبب النّزول تعین على فهم الآية فإن العلم بالسّبب یورث العلم بالمسبّب." (مجموع فتاوى ابن تيميہ: 13 : 339)

 کہ سبب نزول کی پہچان کسی آیت کے فہم و ادراک میں مدد دیتی ہے اس لیے کہ سبب کے علم سے مسبب کا معلوم ہونا ایک فطری بات ہے۔

ابن دقیق العید﷫ (702ھ)اور ابوالفتح قشیری﷫ کے نزدیک اس فن کی معرفت فی الجملہ معاوِن تو ہے  لیکن تفسیر قرآن صرف اس ایک نکتہ پر موقوف نہیں ہے ۔

اسلاف کے ان اقوال کی تطبیق کچھ یوں کی جاسکتی ہے کہ صحابہ یا تابعین نے جو اسباب نزول بیان فرمائے ہیں ۔ ان کی دو قسمیں ہیں:

1:وہ جن کی طرف خود آیات میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مثلاً مغازی یا دیگر واقعات کہ جب تک ان واقعات کی تفصیل سامنے نہ ہو متعلقہ آیت میں مذکورہ جزئیات ذہن نشین نہیں ہو سکتیں ۔ اس قسم کے اسباب نزول کے متعلق تو واقعی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک مفسر قرآن کیلئے ان پر عبور لازم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علما ء نے تاریخ جاہلیت اور مغازی کی معرفت کو قرآن فہمی کیلئے لازمی قرار دیا ہے کیونکہ متعلقہ آیات میں ان کی طرف اشارات پائے جاتے ہیں ۔

2: وہ اسباب ہیں جنہیں صحابہ یا تابعین کسی آیت کے تحت نزلت أو أنزل الله في کذا کے الفاظ سے ذکر کرتے ہیں ۔

 پہلی قسم کے اسباب کے بیان میں چونکہ صحابہ﷢ کے اجتہاد کو دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ سراسر روایت وسماع پر مبنی ہوتا ہے ۔ اس بنا پر علماء نے بلا اختلاف اس کو حدیث مسند کا درجہ دیا ہے ۔( وہ حدیث جو ثقہ راویوں کے ذریعے کسی صحابی تک مسلسل طریقے پر پہنچے اور کہیں کسی راوی کا ذکر رہ نہ گیا ہو)

 علامہ ابن تیمیہ﷫ لکھتے ہیں :

 "وإذا ذکر سببا نزلت عقبه فإنهم كلهم یدخلون مثل هذا في المسند، لأن مثل ذلك لا یقال بالرأي"(مقدّمہ فی أصول التّفسير،ابن تیمیہ: ص9)

 کہ صحابی جب کسی آیت کے سبب نزول میں ’اس کے معاً بعد یہ آیت نازل ہوئی‘ جیسے الفاظ استعمال کرے تو اس طرح کی روایات حدیث مرفوع کے حکم میں ہوتی ہیں ، کیونکہ اس طرح کی بات فقط رائے سے نہیں کہی جاسکتی۔ اور دوسری قسم (یعنی جب کوئی صحابی نزلت في کذا کے الفاظ استعمال کرے ) میں اختلاف ہے کہ کیا یہ بھی قسم اول کی طرح مسند حدیث کے حکم میں ہے یا اس کی بنیاد صحابی کے اجتہاد و رائے پر ہے ؟

 جلال الدین سیوطی﷫ امام حاکم﷫ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

 "وإذا أخبر الصّحابي الّذي شهد الوحي والتنزیل عن آية من القرآن أنها نزلت في کذا، فإنه حدیث مسند ومشی على هذا ابن الصّلاح وغیره." (الاتقان فی علوم القرآن،حافظ جلال الدین سیوطی: 1 : 93)

 کہ جب کوئی صحابی جو نزولِ وحی کے وقت موجود تھا، قرآن کی کسی آیت کے بارے میں خبر دے کہ یہ آیت فلاں واقعہ میں نازل ہوئی تو یہ بھی حدیث مرفوع (وہ قول، فعل، تقریر اور صفت ہے جس کی نسبت حضورﷺ کی طرف کی گئی )ہے ، یہی رائے ابن صلاح وغیرہ کی بھی ہے۔

امام زرکشی﷫ لکھتے ہیں :

 "قد عرف من عادة الصحابة والتابعین أن أحدهم إذا قال: نزلت هذه الآية في کذا فإنه یرید بذلك أن هذه الآية تتضمّن هذا الحکم لا أن هذا کان السّبب في نزولها ... فهو من جنس الاستدلال على الحکم بالآية لا من جنس النقل لما وقع."(البرهان،امام زرکشی: 1 : 31)

 کہ صحابہ و تابعین کی یہ معروف عادت ہے کہ جب وہ ’یہ آیت فلاں مسئلے میں نازل ہوئی‘ کہیں تو اس سے ان کی یہ مراد ہوتی ہے کہ وہ آیت اس حکم کو شامل ہے نہ کہ فلاں واقعہ اس آیت کا سبب نزول ہے ... پس صحابہ کا یہ کہنا آیت سے کسی حکم کے بارے میں استدلال کرنے کی قبیل سے ہوتا ہے نہ کہ واقعہ کی خبر نقل کرنے کی جنس سے ۔

 اس قسم کے واقعات کو ایک مناسبت کی بناء پر آیت کے تحت ذکر کیا جاسکتا ہے ۔ ورنہ آیت کے مفہوم کو ذہن نشین کرنے کے لئے ان کی معرفت لازمی نہیں ہے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی﷫ رقمطراز ہیں :

 "وقد ذکر المفسّرون تلك الحادثة بقصد الإحاطة بالآثار المناسبة للآیة أو بقصد بیان ماصدق عليه العموم ولیس هذا القسم من الضروریات ... وکان غرضهم تصویر ما صدقت عليه الآیة."( الفوز الكبير:شاہ ولی اللہ دہلوی، ص73)

 کہ بسا اوقات مفسرین آیت کے تحت کوئی واقعہ اس مقصد سے ذکر کر دیتے ہیں کہ اس آیت سے مناسبت رکھنے والے واقعات جمع ہو جائیں یا جس امر کی عموم تصدیق کر رہا ہو اس کی وضاحت ان کا مقصود ہوتی ہے ۔ یہ قسم ضروری اسبابِ نزول سے نہیں ہے ۔ اس سے ان کامقصد اس امر کی تصویر کشی کرنا ہوتا ہے جس پر آیت صادق آسکتی ہے ۔

 جلال الدین سیوطی﷫ نے الاتقان میں بیان کیا ہے :

 ’’حدیث کے بعد تفسیر میں قولِ صحابی کا درجہ ہے کیونکہ صحابی کی تفسیر ان کے نزدیک بمنزلہ مرفوع کے ہے جیسا کہ حاکم نے مستدرک میں کہا ہے ۔ اور ابوالخطاب حنبلی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ تفسیر صحابی کی طرف رجوع نہ کیا جائے جب ہم یہ کہیں کہ قول صحابی حجت نہیں مگر صحیح بات اس کا حجت ہونا ہے کیونکہ تفسیر صحابی روایت کی قسم سے ہے نہ کہ رائے کی قسم سے ۔ میں (صاحب اتقان) وہی کہتا ہوں جو حاکم نے کہا ہے کہ تفسیر صحابی مرفوع ہے ۔ ابن صلاح وغیرہ نے اس کا خلاف کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ شانِ نزول وغیرہ کے ساتھ خاص ہے جس میں رائے کا دخل نہیں پھر میں نے خود حاکم کو دیکھا کہ انہوں نے علوم حدیث میں اس کی تصریح کی ہے چنانچہ فرماتے ہیں کہ موقوفات سے مراد تفسیر صحابہ ہے اور جو مرفوع کہتا ہے وہ شانِ نزول کی بابت کہتا ہے، پس حاکم نے علوم حدیث میں خاص کر دیا اور مستدرک میں عام چھوڑدیا۔‘‘ (الإتقان: 2 : 505، 506)

 ابن الصلاح﷫ (643ھ) فرماتے ہیں:

 ’’یہ جو کہا گیا ہے تفسیر صحابی مرفوع ہے تو یہ شانِ نزول وغیرہ کی بابت ہے ۔‘‘(مقدّمہ ابن الصّلاح: ص23)

خلاصہ یہ کہ جب محدثین اور مفسرین کے اصول سے یہ بات طے ہو گئی کہ شانِ نزول مرفوع کےحکم میں ہے تو جیسے احادیث کا فیصلہ ہوتا ہے ویسے ہی اس کا فیصلہ کر لینا چاہئے ۔ اس کے فیصلہ کی صورت یہی ہے کہ جس حدیث میں اختلاف نہیں ہوتا وہ تو سر آنکھوں پر، اور جس میں اختلاف ہوتا ہے وہاں راجح قول اختیا رکیا جاتا ہے اس طرح جس شانِ نزول کو دیکھا کہ اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا وہ بے چوں چرا تسلیم کرنا چاہئے اور جس میں اختلاف ہو وہاں راجح مرجوح کو دیکھنا چاہئے۔

 چنانچہ امام واحدی﷫ لکھتے ہیں :

 "لا یحلّ القول في أسباب نزول الکتاب إلا بالرواية والسّماع ممن شاهدوا التنزیل ووقفوا على الأسباب و بحثوا عن علمها." (أسباب نزول القرآن،امام ابوالحسن علی  الواحدی: ص5)

 کہ کتاب اللہ کے اسباب نزول کے بارے میں کچھ کہنا جائز نہیں ہے۔ اس سلسلے میں انہی صحابہ کی روایت اور سماع معتبر ہے جو نزول قرآن کے وقت موجود تھے اور وہ اس کے اسباب سے واقف تھے اور اسی کے جاننے کے لئے بحث وکرید میں لگے رہتے تھے۔

 اس بناء پر سلف صالحین﷭ اسباب نزول کے سلسلہ میں روایت قبول کرنے میں تشدّد سے کام لیتے اور جب تک کسی صحابی سے صحت سند کے ساتھ اس کا مروی ہونا ثابت نہ ہو جاتا وہ اسے قابل التفات نہ سمجھتے ۔ امام ابن سیرین﷫ (110ھ)بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبیدہ﷜ سے ایک آیت کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:

"اتق الله وقل سدادًا ذهب الذین یعلمون فیما أنزل القرآن." (تفسیر القرآن العظیم،ابن کثیر: 1 :12)

 کہ اللہ سے ڈرو اور کھری بات کہو، وہ لوگ چلے گئے جو جانتے تھے کہ قرآن کس بارے میں نازل ہوا؟

  یہاں پر یہ بھی ذہن نشین کر لینا ضروری ہے کہ کوئی آیت اپنے نفس الامری مفہوم اور عموم کے اعتبار سے سببِ نزول کے ساتھ مقید و مختص نہیں ہوتی بلکہ معنی و مفہوم کے اعتبار سے اس آیت کو عموم پر ہی محمول کرنا ضروری ہے۔

 جلال الدّين سیوطی﷫ لکھتے ہیں :

 ’’اَصح یہ ہے کہ نظم قرآن کو اس کے عموم پر محمول کیا جائے اور اسبابِ خاصہ کا اعتبار نہ کیا جائے ... کیونکہ صحابہ کرام﷢ پیش آمدہ واقعات کی توضیح میں آیات کے عموم سے استدلال کرتے رہے ہیں ، گو ان کے اسبابِ نزول خاص تھے ۔ ‘‘

 علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:

 "قَصْر عمومات القرآن علی أسباب نزولها باطلٌ فإن عامة الآیات نزلت بأسباب اقتضت ذلك وقد علم أن شیئا منها لم یقصر على سببه."( مجموع فتاوى ابن تيمية: 15 : 364)

 کہ عمومِ قرآن کو اسبابِ نزول پر محدود کر دینا باطل ہے کیونکہ اکثر آیات ایسے اسباب کے تحت نازل ہوئی ہیں جو اسکے مقتضی تھے ۔ جبکہ یہ معلوم ہے کہ کوئی آیت بھی اپنے سبب نزول تک محدود نہیں ہے۔(بلکہ باعتبار عمومِ لفظ اسمیں وسعت ہے۔)

 آگے چل کر فرماتے ہیں :

 "ورود اللفظ العامّ على سبب مقارن له في الخطاب لا یوجب قصره عليه ... غاية ما یقال: إنها تختص بنوع ذلك الشخص فتعمّ ما يشبهه."( مجموع فتاوى ابن تيمية 15 : 451)

 کہ کسی عام لفظ کا خطاب کے مخصوص سبب کی بنا پر آنا اس کو اس سبب سے مقید نہیں کرتا ... زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے۔ یہ الفاظ اس قسم کے لوگوں کے بارے میں آئے ہیں اور اس سے ملتے جلتے لوگوں کو یہ الفاظ شامل ہوں گے۔

اسباب نزول سے نا آشناہونے کا نتیجہ:

اسباب نزول کا علم آیت کے مقصد کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو تاہے اور اسباب نزول کی لا علمی غلطی اور خطا کا سبب بنتا ہے ، مثلا کہا جاتا ہے کہ مروان بن حکم کو اس آیت کے سمجھنے میں ابہام اور اشکال پیدا ہوا :

لَا تَحۡسَبَنَّ ٱلَّذِينَ يَفۡرَحُونَ بِمَآ أَتَواْ وَّيُحِبُّونَ أَن يُحۡمَدُواْ بِمَا لَمۡ يَفۡعَلُواْ فَلَا تَحۡسَبَنَّہُم بِمَفَازَةٍ۬ مِّنَ ٱلۡعَذَابِ‌ۖ وَلَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٌ(العمران188)

یعنی آپ ایسے لوگوں کو ہر گز خیال نہ کریں جو اپنی کارستانیوں پر خوش ہو رہے ہیں اور نہ کردہ اعمال پر بھی اپنی تعریف کے خواہشمند ہیں آپ انہیں ہر گز عذاب سے نجات پانے والا نہ سمجھیں اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔

اس پر مروان بن حکم نے کہا یہ آیت مسلمانوں کے لیے وعید ہے ،جو شخص اپنے عمل پر خوش ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جو عمل اس نے نہیں کیا اس پر اس کی تعریف کی جائے ۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ آیت اہل کتاب کے متعلق نازل ہوئی جب رسو ل اللہ ﷺ نے ان سے کسی چیزکے متعلق پوچھا تھا تو انہوں نے صحیح بات چھپا کر کچھ اور بتایا اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ جو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا اسی کے بارے میں ہی انہوں نے بتایا ہے اور وہ چاہتے تھے کہ اس پر ان کی تعریف کی جائے) الاتقان فی علوم القرآن ،جلال الدین عبدالرحمان بن ابو بکر سیوطی،  ج۱،ص۵۹، مکتبہ رحمانیہ لاہور)

جو شخص قرآن مجید کو سمجھنا چاہتا ہے یا قرآن کی تفسیر کرنا چاہتا ہے تو اس شخص کے لیے لازمی ہے کہ وہ اسباب نزول کا بھی علم حاصل کرے ، اس سے وہ خود کو شبہات سے محفوظ کر لے گا، اور قرآن کا صحیح فہم و ادراک حاصل کر پائے گا ۔ ورنہ وہ قرآن سے ہدایت پانے کے بجائے گمراہی کی طرف چلا جائے گا ۔

خلاصہ بحث:

مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسبابِ نزول یاشان نزول  سےآیت یا سورت کا ترجمہ و تفسیر سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن کسی آیت کا سبب نزول معلوم ہونے کے بعد مسئلہ یہیں  تک نہیں رکتا،بلکہ  اس کے بعد اس حکم پر بات آتی ہےکہ اس آیت میں بیان کردہ امر کا اطلاق کس پرہوگا؟آیا کہ جس کی شان میں اتری یا ہرمسلمان پر اور ساتھ ہی ان الفاظ کو دیکھا جائے گا کہ آیا نازل کردہ الفاظ ہر ایک کےلئےتھے یا مخصوص حالات واقعات  میں  کسی خاص شخص  کےلئے ہیں؟اس کےلئے دیکھا جائے گا کہ ان آیات کے’’الفاظ کا اعتبار عام ہو اور سبب خاص‘‘ تو پھر کیا حکم ہوگا اور اگر ’’سبب بھی عام ہو اور آیت کےالفاظ بھی عام ہوں ‘‘یا پھر اس کے برعکس (خاص سبب اور آیت کے الفاظ خاص ہوں) تو پھر کیا سمجھاجائے گا؟

اس آیت کا اطلاق  محض اسی ایک لمحہ،واقعہ ، یا سبب پرموقوف یا منقطع نہیں ہوتا ۔ بلکہ اب جب کبھی بھی اس قسم کے حالات ،واقعات یا کیفیات پیدا ہوں گی اس کا اطلاق ہوگا۔ بلکہ بعض نئے مواقع جن کا سرے سے اس وقت ظہور ہی نہیں تھا لیکن قیاس و اجماع امت کے تحت ان مسائل پر بھی ان کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ اسباب نزول  دو قسم پر ہیں بعض اسباب تو وہ ہیں جن سے آیت کے پس منظر پر روشنی پڑتی ہے اور جب اس واقعہ کو بیان نہ کیا جائے پورے طور پر آیت کا مفہوم ذہن نشین نہیں ہو پاتا۔ لیکن اکثر واقعات وہ ہیں جو علمائے تفسیر نے اسباب کے طور پر ذکر کر دئیے ہیں ورنہ درحقیقت نہ تو وہ اسبابِ نزول ہی ہیں اور نہ ہی ان سے صرف نظر کر لینے سے آیت کا مفہوم سمجھنے میں کسی قسم کی مشکل پیش آتی ہے۔ جیسا کہ شاہ صاحب نے "الفوزالکبیر" میں تصریح کی ہے۔ نیز یہ کہ کوئی بھی آیت اپنے سببِ نزول کے ساتھ مختص نہیں ہوتی بلکہ اسے عموم پر رکھنا ضروری ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی آیت کا سبب نزول کا علم اس وقت کےحالات و واقعات،سیاق و سباق سے روشناس کرواتا ہے -جس کے علم سےشبہات کا ازالہ ممکن ہے اور دیگر امور میں  بھی اس سے فوائد حاصل ہوتے ہیں-

حضرات صحابہ و تابعین کے کلام پر غور و فکر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا یہ فرمانا کہ یہ آیت فلاں بارے میں نازل ہوئی کسی ایسے واقعہ کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہوتا جو عہد نبوی میں واقع ہو کر نزول وحی کا سبب بنا بلکہ ان کا اطلاق تمام ایسے واقعات پر کیا جائے گا  جو آیت کے مطالب سے مطابقت رکھتے ہوں، قطع نظر اس سے کہ وہ عہد نبوی میں وقوع پذیر ہوئے ہوں یا اس کے بعد۔ صرف اصل حکم میں انطباق کافی ہے ۔

مولانا حمید الدین فراہیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ

شان نزول کا مطلب ، جیسا کہ بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھا ہے ، یہ نہیں ہے کہ وہ کسی آیت یا سورہ کے نزول کا سبب ہوتا ہے ، بلکہ اس سے مراد لوگوں کی وہ حالت و کیفیت ہوتی ہے جس پر وہ کلام بر سر موقع حاوی ہوتا ہے ۔ کوئی سورہ ایسی نہیں ہے جس میں کسی خاص امر یا چند خاص امور کو مد نظر رکھے بغیر کلام کیا گیا ہو، اور وہ امر یا امور جن کو کسی سورہ میں مد نظر رکھا جاتا ہے ، اس سورہ کے مر کزی مضمون کے تحت ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر تم کو شان نزول معلوم کرنی ہو تو اس کو خود سورۃ سے معلوم کرو کیونکہ کلام کا اپنے موقع و محل کے مناسب ہونا ضروری ہے ۔ جس طرح ایک ماہر طبیب دوا کے نسخہ سے اس شخص کی بیماری معلوم کر سکتا ہے جس کے لیے نسخہ لکھا گیا ہے اسی طرح تم ہر سورہ سے اس سورہ کے شان نزول معلوم کر سکتے ہو۔ اگر کلام میں کوئی خاص موضوع پیش نظر ہے تو اس کلام اور اس موضوع میں وہی مناسبت ہو گی جو مناسبت لباس اور جسم میں بلکہ جلد اور بدن میں ہوتی ہے ۔ اور یہ قطعی ہے کہ کلام کے تمام اجزاء باہم د گر مربوط و متصل ہوں گے۔ اور یہ جو روایتوں میں آتا ہے کہ فلاں فلاں آیتیں فلاں فلاں معاملات کے بارے میں نازل ہوئیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ سورہ کے نزول کے وقت یہ احوال و مسائل درپیش تھے تاکہ معلوم ہو سکے کہ سورہ کے نزول کے لیے کیا محرکات اور اسباب موجود تھے۔( تفسیر قرآن کے اصول ، حمید الدین فراہی ، ص ۹۶، ادارہ تدبر قرآن و حدیث، لاہور، ۱۹۹۹ء)


Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post