حضرت ابو بکر صدیق ﷜ فضائل و مناقب


آپ كا نام عبد الله كنيت ابو بكر اور لقب صديق وعتيق ہے۔ چھٹی پشت ميں سلسلہ نسب رسول الله ﷺ سے جا ملتا ہے۔ آپ ﷜ عمر ميں رسول الله ﷺ سے دوبرس چھوٹے ہيں۔ بچپن ہی سے  خیروشرافت آپ كی طبيعت كا حصہ بن چكی تھی۔ ايام جاہليت ميں بھی جب عرب معاشره ميں گناہوں كے تمام اسباب موجود تھے، آپ ﷜كسی گناه كے قريب نہيں گئے، انتہائی مالدار اور مكہ كے بڑے تاجروں ميں شمار ہوتا تھا ۔مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول كر كے مؤمن اول كہلائے۔ سب سے پہلے معراج كی تصديق كی تو صديق الاكبر﷜كہلائے۔ مسلم غلاموں كو ان كے ظالم آقاؤں سے نجات دلائی تو زبان نبوت سے عتيق من النار كا پروانہ ملا۔ آپ كی ساری زندگی  اتباع رسول وعشق  رسول ﷺ سے تعبير ہے۔ انہی خصوصيات كے باعث آپ باقی ساری امت سے ممتاز ٹھہرے اور أفضل الخلائق بعد الأنبياء كے مقام پر فائز ہوئے۔

امام نووی فرماتے ہیں:

 وكان من رؤوساء قريش في الجاهلية وأهل مشاورتهم ومحبباً فيهم وأعلم لمعالمهم ۔(تاریخ الخلفاء ص،12)

حضرت ابوبکر صدیق ﷜ کا شمار دور جاہلیت میں قریش کے سرداروں او راہل مشاورت میں ہوتا تھا،آپ کی شخصیت نہایت محبوب تھی، قریش کے معاملات کو بہتر طور پر سمجھتے تھے۔

اعلان نبوت سے پہلے آپ نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا۔ جیساکہ سبل الہدی والرشاد میں ہے:

أنه رأى رؤيا قبل، وذلك أنه رأى القمر نزل إلى مكة ثم رآه قد تفرق على جميع منازل مكة وبيوتها فدخل في كل بيت شعبة، ثم كان جميعه في حجره. فقصها على بعض أهل الكتابين فعبرها له بأن النبي صلى الله عليه وسلم - المنتظر قد أظل زمانه، اتبعه وتكون أسعد الناس به، فلما دعاه رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يتوقف. (سبل الہدی والرشاد، ج2،ص303)

اعلان نبوت سے پہلے آپ نے ایک خواب دیکھا، آسمان پر چودھویں کا چمکتا ہوچانداچانک پھٹ گیا، اس کے ٹکڑے مکہ کے ہر گھرمیں بکھرمیں گئے پھر یہ ٹکڑے سمٹ کراکٹھے ہوئے اوریہ چمکتا ہوا چاند آپ کی گود میں آگیا۔آپ نے یہ خواب اہل کتاب کے عالم کو سنایا تو اُس نے تعبیر بتائی کہ وہ نبی محتشم جن کا انتظار ہے ؛ اس نبی آخرالزماں کے آپ معاون ومددگار ہوں گے ۔توجب حضور کی بعثت ہوئی تو آپ نے بلاتوقف بغیر کسی پس وپیش کے اسلام قبول کرلیا۔

 

آپ ﷜بچپن سے رسول الله ﷺ كے دوست تھے، ايك سفر سے واپسی پر جب آپ ﷜نے سنا كہ محمد ﷺ نے نبوت كا دعوٰی كيا ہے تو بغير كسی دليل طلب كئے فوراً ايمان لے آئے۔ اس طرح مردوں ميں اسلام قبول كرنے والے پہلے صحابی ٹھہرے۔

    ایک مرتبہ جب مشرکین مکہ نے حضور کی سر عام ہجو کی اور آپﷺ پر حملہ آور ہوئے تو اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیق بیچ میں آ گئے۔ اور دشمنان دين كو مخاطب كر كے ارشاد فرمايا:

أَتَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ (غافر:28)

لوگوں تم ايك ايسے شخص كو مارنا چاہتے ہو جو كہتا ہے كہ الله ميرا رب ہے (اور اپنے دعوى كی تصديق كيلئے) اپنے رب كی طرف سے تمھارے پاس واضح دلائل لے كر آيا ہے۔

يہ اعلانيہ پہلا اسلامی خطبہ تھا جس كے ردعمل ميں  مشرکین نے  آپ ﷜كو مار مار كر بے ہوش كر ديا۔ اسلام قبول كرنے كے بعد آپ لمحہ بھر توقف كئے بغير دين كی دعوت ميں لگ گئے۔ آپ كی دعوت پر بڑے بڑے صحابہ كرام ﷡نے اسلام قبول كيا جن ميں حضرۃ ذو النورين عثمان بن عفان ﷜، حضرۃ عبد الرحمن بن عوف، حضرۃ زبير، حضرۃ طلحه، حضرۃ سعد بن ابی وقاص اور حضرۃ عثمان بن مظعون ﷡ جيسے اكابر صحابہ  شامل ہيں۔ آپ نے اسلام قبول كرنے والے بے شمار غلاموں كو ان كے ظالم آقاؤں سے خريد كر آزاد كيا ان ميں بلال حبشی ﷜اور حضرۃ عامر ابن فهيره ﷜مشہور صحابی ہيں۔

آپ كی خصوصيات ميں آپ كا ايك بڑا اعزاز خليفۃ الرسول  بلا فصل ہونا ہے يہ اعزاز نہ تو كسی اور كو ملا ہے نہ ہی مل سكتا ہے۔

عن علي انه قال خير هذه الامة بعد نبيها أبوبکر رضي اﷲ عنه.( احمد بن حنبل، المسند، 1 : 110، رقم : 879)

حضرت علی ﷜ نے فرمایا : حضور ﷺ کے بعد اس امت میں سے بہتر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘

 آپ﷜ہی وہ عظيم صحابی ہيں كہ ہجرۃ كے سفر كيلئے رسول الله ﷺ نے آپ ﷜كی معيت كا انتخاب فرمايا۔ پھر سفر ہجرت ميں رسول الله ﷺ كے ساتھ رہے۔ غار ثور ميں تين راتوں كے قيام ميں آپ ﷜كی گود ميں سرور كونين ﷺ كا سر مبارك ركھا ہوا تھا۔ رخ محبوب كا جی بھر كر ديدار كيا۔ ديدار كے مزے لوٹ رہے تھے كہ آپ كے پاؤں كو ايك سانپ نے ڈس ليا۔ صديق الاكبر ﷜ كی آنكھوں سے درد كے اثر سے جاری ہونے والے آنسو رسول الله ﷺ كے مبارك رخساروں پر گرے۔ بيدار ہو كر آپ ﷺ نے لعاب دہن ابو بكر صديق ﷜كی ايڑی پر لگايا جس سے آپ ﷜كی تكليف رفع ہو گئی۔ الغرض ہجرت كے سفر ميں جو اعزازات حضرت ابو بكر صديق ﷜كو حاصل ہوئے وہ آپ ہی كا خاصہ ہيں، خود اللہ رب العزت   نے سفر ہجرت سے متعلق آپ كا ذكر قرآن پاك ميں فرمايا:

ثَانِىَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِى الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّـٰهَ مَعَنَا ۖ  (التوبہ: 40)

كہ وہ دوسرا تھا دو ميں كا جب وہ دونوں تھے غار ميں، جب وہ كہہ رہا تھا اپنے رفيق سے تو غم نہ كھا بيشك الله ہمارے ساتھ ہے۔

عن أنس، عن أبي بکر رضي الله عنه قال : قلت للنّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم و أنا في الغار : لو أنّ أحدهم نظر تحت قدميه لأبصرنا، فقال : ’’ما ظنّک يا أبا بکر باثنين اﷲ ثالثهما( بخاري، الصحيح، 3 : 1337، رقم : 3453)

’’حضرت انس ﷜حضرت ابوبکر صدیق ﷜ سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : ’’میں نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا جب کہ میں (آپ کے ساتھ) غار میں تھا اگر اِن ( تلاش کرنے والے کفار) میں سے کوئی شخص اپنے قدموں کے نیچے دیکھے تو یقیناً ہمیں دیکھ لے گا تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اُن دو (افراد) کے متعلق تمہارا کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا خود اﷲ رب العز ت ہو۔

يہی وجہ ہے كہ سيدنا فاروق الأعظم ﷜كبھی كبھی آپ ﷜سے فرمايا كرتے تھے كہ ميری زندگی كی ساری نيكياں لے لو، صرف غار كی تين راتيں مجھے دے دو۔

ايك مرتبہ كا ذكر ہے فجر كی نماز كے بعد رسول الله ﷺ صحابہ  كرام ﷡سے مخاطب ہوئے اور ارشاد فرمايا:

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ صَائِمًا ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه أَنَا. قَالَ « فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ جَنَازَةً ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه أَنَا. قَالَ « فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مِسْكِينًا ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه أَنَا. قَالَ « فَمَنْ عَادَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مَرِيضًا ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه أَنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَا اجْتَمَعْنَ فِى امْرِئٍ إِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ »(﴿صحیح مسلم2421﴾)

تم ميں سے كس شخص نے آج روزہ ركھا ہے؟"( تمام لوگ خاموش رہے) صديق اكبر ﷜كھڑے ہوئے اور عرض كی كہ آقا ميں روزے سے ہوں۔

پھر آپ ﷺ نے فرمايا: "آج تم ميں سے کون جنازہ کے ساتھ گیا؟حضرت صديق اكبر ﷜كھڑے ہوئے اور عرض كیا"انا "یعنی میں گیا"

پھر آپ ﷺ نے دریافت کیا آج تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا: حضرت ابو بكر الصديق ﷜ نے عرض كیا كہ میں نے

پھر حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ آج کس نے بیمار کی عیادت کی ۔حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا میں نے یا رسول اللہ ﷺ

 اس پر رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص میں بھی یہ باتیں جمع ہونگی وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔

نیز ایک اور حدیث میں  آپ كی اس عظمت، بلند مقام، عظيم رتبہ اور دين كيلئے دی جانے والی قربانيوں كے پيش نظر رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمايا:

عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي مِنْ أَصْحَابِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ (صحيح الترمذي :3805)

 ميرے بعد ابو بكر اور عمر كی اتباع كرنا۔ آپ ہی وہ واحد صحابی ہيں جنھوں نے نبی كريم ﷺ كے مصلى پر 17 نمازيں پڑھائيں۔ آپ ہی كو اپنی زندگی ميں حج كا امير بنا كر آقائے دو عالم ﷺ نے خلافت كی طرف اشاره فرما ديا۔ آپ ﷜نے رسول الله ﷺ كی رحلت كے بعد سوا دو سال تك خلافت كے منصب كو سنبھالے ركھا۔ دين كے خلاف اٹھنے والے فتن مدعيان نبوت, منكرين زكوۃ اور ارتداد كے فتنے كی سركوبی نہايت جرأت اور دليری سے كي۔ تمام مصلحتوں كو بالائے طاق ركھتے ہوئے اندرونی اور بيرونی سازشوں كا مقابلہ قوت ايمانی سے كيا۔

سیدنا ابوبکر ﷜ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ امام الانبیاء محمد رسول اللہﷺ نے آپ﷜ کو اپنا خلیل بنانے کی آرزو کی ہے، جیسا کہ امام ابن ماجہ ﷬اپنی کتاب’’سنن ابن ماجہ‘‘ میں روایت کرتے ہیں :

قال رسول اللّٰہ ﷺ:ولو کنت متخذاً خلیلاً، لاتخذتُ أبابکر خلیلاً۔ (سنن ابن ماجہ،ج:۱،ص:۷۰،رقم الحدیث:۹۳)

’’رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا: اگر میں کسی کو دوست بناتا، تو ابوبکر﷜   کو دوست بناتا۔‘‘

عن أبي الدرداء قال: رأٰني رسول اللّٰہ ﷺ وأنا أمشي بین یدي أبي بکر، قال: ’’لِمَ تمشي ا ٔمام من ھو خیر منک؟ إن أبابکر خیر من طلعت علیہ الشمس وغربت۔ (کتاب السنۃ، ج:۲،ص:۵۷۵، رقم الحدیث:۱۲۲۴)

حضرت ابودرداء ﷜ فرماتے ہیں کہ: مجھے رسول اﷲ ﷺنے دیکھا اس حال میں کہ میں حضرت ابوبکر صدیق ﷜ کے آگے چل رہا تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: تو اس کے آگے کیوں چل رہا ہے جو تم سے بہتر ہے؟ (اس کے بعد فرمایا) جتنے لوگوں پر سورج طلوع ہوتا ہے ان تمام میں ابوبکرسب سے افضل ہیں۔

صداقت وشرافت کے پیکر ، عظمت و جلالت کے مینار ، شجاعت و جرأت کے عَلَم بَردار خلیفۂ اوّل امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق  ﷜کی ذاتِ مبارکہ جہاں بے پناہ خوبیوں اور عمدہ اوصاف سے مزین ہے وہیں آپ  ﷜ میں ہمت ، شجاعت ، جرأت اور بلند حوصلہ کی صفت کامل طور پر موجود ہے امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد قرطبی   ﷬آیتِ مبارکہ نقل کرتے ہوئے فرماتےہیں :

 ( وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌۚ-قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُؕ-اَفَاۡىٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْؕ-وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْــٴًـاؕ    )

اورمحمدتو ایک رسول ہیں ان سے پہلے اور رسول ہوچکے تو کیا اگر وہ انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو اُلٹے پاؤں پھرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا۔

یہ آیتِ کریمہ حضرت ابو بکر صدیق کی جرأت و شجاعت پر بڑی دلیل ہے کیونکہ جرأت اور شجاعت کی تعریف یہ ہے کہ مصائب در پیش ہونے کے وقت دل مضبوط و مستحکم رہے اور رسولُ اللہ  ﷺ  کی رِحلت سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں۔ بڑے بہادر صحابہ بھی ا س موقع پر اپنے آپ کو سنبھال نہ پائے ، حضرت سیدنا عمر فاروق ﷜  نے کہا : حُضور کی وفات نہیں ہوئی ، حضرت سیدنا عثمانِ غنی ﷜ کی زبان گویا بند ہوگئی ، حضرت سیدنامولاعلی ﷜ گھر میں بند ہوکر بیٹھ گئےاور معاملہ بڑا دشوار ہوگیا ، آخر کار حضرت ابوبکر صدیق نے اس آیتِ مبارکہ کو پڑھ کر معاملہ کھول دیا۔( الجامع لاحکام القران للقرطبی ، 2 / 172 ، جز : 4 ، پ4 ، اٰل عمران)

 وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبّہ جَنَّتٰنِ (الرحمٰن:٤٦)

''اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے،اسکے لیے دو جنتیں ہیں''۔ (ابن ابی حاتم ﷬ نے روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق ﷜ کے حق میں نازل ہوئی۔ (تفسیرمظہری، تفسیر درمنثور))

اپنے دور خلافت ميں خليفۃ المسلمين ہوتے ہوئے بھی نہايت تنگ دستی ميں وقت گزارا۔ آپ ﷜نے اپنے مرض وفات ميں ام المؤمنين سيّده عائشہ صديقہ ﷝سے فرمايا كہ ديكھو ميرے مرنے كے بعد ايك اونٹني، ايك برتن كھانے كا، ايك چادر (سونے كيلئے) جو ميرے پاس بيت المال كی امانۃ ہيں مجھے يہ سامان بيت المال سے ديا گيا تھا، بيت المال ميں جمع كروادينا۔ آپ ﷜كی وفات كے بعد سيده عائشہ صديقہ﷝جب يہ مال لے كر حضرت عمر ﷜كے پاس پہنچيں تو حضرت عمر ﷜كی آنكھوں ميں آنسو آگئے اور ارشاد فرمايا: "ابو بكر تم پر الله رحم كرے ہميں سخت مشكل ميں ڈال ديا (كے خليفہ اول كے معیار پر بعد والے كيسے اتريں)۔

امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق ﷜ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ﷝سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے کفنِ مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ ﷺکی وفات کس دن ہوئی ؟اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ ﷜کی یہ انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر ہر لمحات میں تو میں نے اپنے تمام معاملات میں حضور اکرم ﷺ کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پر اتباع کی ہے ۔مرنے کے بعد کفن اور وفات کے دن میں بھی مجھے آپﷺکی اتباع سنت نصیب ہو جائے۔(بخاری جلد ۱،ص۱۸۶ ،باب موت یوم الاثنین)

المسند،مجمع الزوائد،السنہ سے لی گئی ایک طویل روایت جس میں حضرت علی ر﷜ حضرت ابوبکر ﷜ کے فضائل بیان کررہے ہیں:

حضرت اُسید بن صفوان سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق ﷜کی وفات ہوئی اور ان کے اوپر چادر ڈال دی گئی تو لوگوں کی آہ و بکا سے پورا مدینہ لرز اٹھا، لوگ حضور ﷺ کے وصال کے دن کی طرح پریشان تھے۔ حضرت علی بن ابی طالب﷜روتے اور ’’انا ﷲ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھتے ہوئے آئے اور فرمانے لگے آج خلافتِ نبوی منقطع ہوگئی پھر آپ اس مکان کے دروازے پر جس کے اندر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جسد پاک رکھا گیا تھا کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے :

اے ابوبکر! اللہ آپ پر رحم فرمائے آپ سب سے پہلے اسلام لانے والے اور ایمان میں سب سے زیادہ اخلاص والے اور اللہ پر سب سے زیادہ یقین رکھنے والے اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے اور تمام لوگوں سے زیادہ غنا و سخاوت والے اور سب سے زیادہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس رہنے واے اور سب سے زیادہ اسلام پر مہربانی فرمانے والے تھے۔ آپ اصحاب رسول کیلئے سب سے زیادہ باعث برکت، سب سے بڑھ کر حسنِ طلب والے، مناقب و فضائل میں سب سے بڑھ کر، پیش قدمیوں میں سب سے برتر، درجہ میں سب سے اونچے، سب سے زیادہ حضور اکرم ﷺ سے قربت والے اور ہدایت، حسن خلق، زبان پر کنٹرول اور فضل میں حضور ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔ آپ حضور اکرم ﷺ کے نزدیک تمام صحابہ سے بڑھ کر شرف و منزلت والے اور سب سے زیادہ مکرم و معتمد تھے۔ اللہ رب العزت رسول اکرم ﷺ، اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ نے حضور ﷺ کی تصدیق اس وقت کی جب لوگوں نے آپ ﷺ کی تکذیب کی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی کتاب میں صدیق کے نام سے نوازا اور فرمایا : الذی جاء بالصدق و صدق بہ ( وہ ذات جو حق لے کر آئی یعنی نبی اکرم ﷺ اور وہ جس نے تصدیق کی یعنی ابوبکر صدیق ﷜) آپ نے حضور ﷺ سے غمخواری کی جبکہ لوگوں نے بخل کیا، آپ حضور ﷺ کے ساتھ کھڑے رہے جب لوگوں نے ساتھ چھوڑ دیا، آپ نے سختیوں میں بھی حضور ﷺ کے ساتھ صحبت و رفاقت کا بہترین حق ادا کیا، آپ ثانی اثنین (دو میں سے دوسرے) اور صاحبِ رسول ﷺ تھے اور آپ پر سکینہ نازل کی گئی۔ آپ ہجرت اور ہر مشکل مقام پر حضور ﷺ کے رفیق اور ساتھی تھے۔ آپ امت مصطفوی کے لئے حضور ﷺ کے بہترین خلیفہ ثابت ہوئے ورنہ لوگ مرتد ہوگئے تھے، آپ نے اللہ کے دین کو اس طرح قائم کیا جیسا کسی نبی کا خلیفہ کبھی نہ کرسکا تھا۔ آپ قوی رہے جب آپ کے ساتھی کمزور پڑگئے، آپ نے مستعدی دکھائی جب وہ سست ہوگئے، آپ استحکام دین کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے جب لوگوں نے کمزوری دکھائی، آپ جناب رسول اللہ ﷺ کے منہاج (راستے) پر گامزن رہے جب لوگ پست ہمتی دکھانے لگے۔ آپ نے منافقوں کی مخالفت، باغیوں کے بغض و کینہ، کفار کے غیظ وغضب اور حاسدوں کے حسد و ناپسندیدگی کو کوئی اہمیت نہ دی۔ آپ امرِ حق پر ڈٹے رہے جبکہ لوگ ہمت ہارگئے، آپ ثابت قدم رہے جبکہ وہ ڈگمگا اٹھے، آپ ہدایت الٰہی کے نور میں چلتے رہے جبکہ وہ کھڑے ہوگئے آخر انہوں نے آپ کی پیروی کی اور ہدایت پائی۔ آپ کی آواز سب سے پست تھی مگر آپ کا رتبہ سب سے اعلیٰ، آپ کا کلام کم تھا مگر سب سے زیادہ درست و صحیح، آپ سب سے زیادہ خاموش رہنے والے تھے مگر آپ کا قول فصاحت و بلاغت میں سب سے بڑھ کر تھا۔ آپ اعلیٰ رائے، شجاعتِ قلبی، یقین کی مضبوطی، حسن عمل اورمعاملات فہمی میں سب سے بڑھ کر تھے۔ اﷲ رب العزت کی قسم! آپ دین کے اولین سردار تھے جب لوگ دین سے ہٹے اور آپ آخری سردار تھے جب وہ دین کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ مسلمانوں کیلئے رحیم باپ کی مانند تھے یہاں تک کہ وہ آپ کی اولاد کی طرح ہوگئے۔ جن بھاری بوجھوں کو وہ نہ اٹھا سکے آپ نے ان کو اٹھالیا، جو وہ ضائع کرنے والے تھے اس کو آپ نے بچالیا، اور جس کو وہ چھوڑنے والے تھے آپ نے اس کا خیال رکھا۔ آپ نے مستعدی دکھائی جب وہ عاجز آگئے، آپ نے حوصلے بلند رکھے جب وہ پست ہمت ہوئے، آپ ثابت قدم رہے جب وہ گھبرا گئے اور آپ ہی کی وجہ سے انہوں نے وہ کامیابی اور ہدایت پائی جس کا ان کو گمان بھی نہ تھا۔ آپ کافروں کیلئے عذاب کا طوفان اور آگ کا شعلہ تھے اور مومنین کیلئے محبت و رحمت کی موسلا دھار بارش۔ آپ نے اوصاف و کمالات کی فضا میں پرواز کی، ان کا عطیہ پایا اور ان میں بہترین کو چن لیا۔ آپ کی حجت کو کبھی شکست نہ ہوئی، آپ کا دل کبھی زنگ آلود نہ ہوا، آپ کی بصیرت کبھی کمزور نہ پڑی اور نہ ہی کبھی آپ کا نفس بزدل یا خائن ہوا۔ گویا آپ اس پہاڑ کی مانند تھے جس کو آندھیاں کبھی حرکت نہ دے سکیں، اور طوفان کبھی متزلزل نہ کرسکے۔ آپ ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق حضور ﷺ پر رفاقت اور مالی خدمت دونوں کے اعتبار سے سب سے زیادہ احسان کرنے والے تھے اور حضور ﷺ کے ارشاد کے مصداق آپ جسمانی اعتبار سے اگرچہ کمزور مگر اللہ کے دین کے معاملے میں قوی و مضبوط تھے۔ آپ نفس کے اعتبار سے متواضع تھے مگر اللہ کے ہاں بلند مرتبہ، زمین پر افضل اور مومنین کے ہاں بڑی قدر و منزلت والے تھے آپ کی نسبت نہ کوئی طنز کرتا تھا اور نہ کوئی حرف گیری کرسکتا تھا آپ میں نہ کسی کو طمع تھی اور نہ ہی آپ (دین کے معاملے میں) کسی کی رعایت کرتے تھے۔ ضعیف اور پست آدمی آپ کے نزدیک اسوقت تک قوی تھا یہاں تک کہ آپ اس کو اس کاحق دلائیں اور قوی و غالب شخص آپ کے نزدیک ضعیف و ذلیل تھا یہاں تک کہ آپ اُس سے دوسروں کاحق چھین لیں۔ دور ونزدیک دونوں قسم کے آدمی آپ کی نگاہ میں یکساں تھے۔ آپ کی شان حق، سچائی اور نرمی تھی، آپ کا حکم قطعی و حتمی تھا، آپ کا معاملہ بردباری اور دور اندیشی تھا، آپ کی رائے علم اور عزم تھا۔ آپ دنیا سے رخصت ہوئے جبکہ راستہ ہموار ہوگیا، مشکل آسان ہوگئی اور آگ بجھ گئی۔ آپ کی وجہ سے دین معتدل حالت میں آیا، ایمان قوی ہوئے، اللہ کا امر غالب آیا اگرچہ کافروں کو اس سے تکلیف ہوئی اور اسلام اور مسلمان ثابت قدم ہوگئے۔ اللہ رب العزت کی قسم! آپ دین پر عمل کے اعتبار سے اتنا آگے نکل گئے کہ اپنے بعد والوں کو تھکا دیا، آپ کامیاب ہوئے اور آہ و بکا سے مبرا ہوئے آپ کی موت کی شدت آسمان پر محسوس کی جارہی ہے اور آپ کی موت کی مصیبت نے تمام نوع انسانی کو رنج و الم میں ڈال دیا ہے ہم سب اللہ کیلئے ہیں اوراس کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ہم اللہ رب العزت کے فیصلے سے راضی ہیں اور ہم نے اپنا معاملہ اسکے سپرد کر دیا ہے۔ اللہ کی قسم! رسول اکرم ﷺ کے وصال کے بعد آپ کی موت سے بڑا صدمہ مسلمانوں پر نازل نہیں ہوا۔ آپ دین کیلئے عزت اور جائے پناہ، مسلمانوں کیلئے قلعہ، گروہ اور دار الامن، اور منافقوں کیلئے سراپا شدت اور غیظ و غضب تھے۔ پس اللہ رب العزت آپ کو اپنے نبی اکرم ﷺ سے ملا دے اور ہمیں آپ کے اجر سے کبھی محروم نہ فرمائے اور ہمیں ہمیشہ حق پر ثابت قدم رکھے۔ اناﷲ و انا الیہ راجعون۔ جب تک حضرت علی ﷜کلام فرماتے رہے لوگ خاموشی سے سنتے رہے اور پھر اس طرح بے تحاشہ روئے جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کے وصال کے دن روئے تھے اور سب کہنے لگے : اے رسول اکرم ﷺ کے داماد، بے شک آپ نے سچ فرمایا۔

آپ ﷜ ک فضیلت میں چند مزید احادیث مبارکہ

عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما نفعني مال أحد قطّ ما نفعني مال أبي بکر(1. ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 609، ابواب المناقب، رقم : 3661)

حضرت ابوہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : کسی کے مال نے کبھی مجھے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابوبکر ﷜ کے مال نے دیا ہے۔

 عن ابن عبّاس خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في مرضه الّذي مات فيه عاصبا رّأسه في خرقة فقعدعلي المنبرفحمد اﷲ وأثنٰي عليه ثمّ قال : ’’إنّه ليس أحد أمنّ عليّ في نفسه وماله من أبي بکرابن أبي قحافة(بخاري، الصحيح، 1 : 178، رقم : 455)

حضرت عبد اﷲ بن عباس ﷠سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ اپنی مرض وصال میں باہر تشریف لائے۔ آپ ﷺنے اپنا سرانور کپڑے سے لپیٹا ہوا تھا۔ پس ﷺ منبر مبارک پر جلوہ افروز ہوئے۔ اﷲ رب العزت کی حمد و ثنا بیان کی پھر ارشاد فرمایا : ’’ابوبکر ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر اپنی جان و مال (قربان کرنے ) کے اعتبار سے مجھ پر زیادہ احسان کرنے والا کوئی نہیں۔

عن زيد بن أسلم عن أبيه قال : سمعت عمر بن الخطّاب يقول : أمرنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أن نتصدّق، فوافق ذٰلک عندي مالا، فقلت : أليوم أسبق أبابکر إن سبقته يوما، قال : فجئت بنصف مالي، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قلت : مثله، وأتٰي أبوبکر بکلّ ما عنده، فقال صلي الله عليه وآله وسلم : ’’يا أبابکر ما أبقيت لأ هلک؟‘‘ قال : أبقيت لهم اﷲ ورسوله، قلت : لا أسبقه إلٰي شيء أبدا(ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 614ابواب المناقب، رقم : 3675)

حضرت زید ﷜ بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت عمر بن الخطاب ﷜ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمیں حضور نبی اکرم ﷺنے صدقہ دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس حکم کی تعمیل کے لئے میرے پاس مال تھا۔ میں نے (اپنے آپ سے) کہا، اگر میں ابوبکر صدیق ﷜سے کبھی سبقت لے جا سکتا ہوں تو آج سبقت لے جاؤں گا۔ (حضرت عمر ﷜ فرماتے ہیں کہ میں اپنا نصف مال لے کر حاضرِ خدمت ہوا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ میں نے عرض کی : ’’اتنا ہی مال اُن کے لئے چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ (اتنے میں) حضرت ابوبکر ﷜ جو کچھ اُن کے پاس تھا وہ سب کچھ لے کر حاضرِخدمت ہوئے۔ آپ ﷺنے فرمایا۔ ’’اے ابوبکر ﷜ ! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟‘‘ انہوں نے عرض کی : ’’میں ان کے لئے اﷲ اور اُس کا رسولﷺ چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ حضرت عمر ﷜فرماتے ہیں میں نے (دل میں) کہا، میں اِن سے کسی شے میں آگے نہ بڑھ سکوں گا۔

Post a Comment

Previous Post Next Post

Featured Post