مؤمنین
کاوہ گروہ ہے جن کے لیے ہر شے، واقعہ، بات بلکہ ہر گزرتا ہوالمحہ ان کی ولایت ، بزرگی
اورسعادت میں اضافہ ہوتا رہتاہے۔فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً(سورۃ النحل
:97)(پس ہم ضرور عطاکریں گے انہیں پاکیزہ زندگی)کی کیفیت رکھنے والے افراداولیاء اللہ
کے نام سے موسوم کیئے جاتے ہیں۔یہ اللہ رب العزت کے محبوب،پیارے، منتخب اورچنیدہ افراد
ہوتے ہیں جوحق ومعرفت کے پیغام۔۔۔
بہت کم لوگ غیر
معمولی ذہانت ،بڑا اورمضبوط دل لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر یہ حضرات سلیم العقل،
سلیم الروح، سلیم الفطرت،وسیع القلب، کریم النفس،حلیم الطبع، قوی الذہن،سریع
الحفظ،تام الضبط، فصیح اللسان،بلیغ الکلام،معجزالبیان، صادق القول،جامع الکمالات
بھی ہوں اورحسنِ سلوک،حسنِ کردار، حسنِ عمل ، پرکاربند اورفوز
وفلاح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے بھی ہوں تو ان کے اندر جوہر ملائکہ
اور فرشتوں کی سی صفات پیدا ہو جاتی ہیں اورترقی کرتے کرتے ایک وقت ایسا بھی آتاہے
کہ یہ فرشتہ صفت انسان تو فرشتوں سے بھی
بہتراور اعلیٰ ہوجاتے ہیں کہ جواپنی پسند،خواہش ،خوشی، آزادی کے ساتھ خود کو ہمہ
تن سراپاعجزو نیکی بنالیتے ہیں ۔ ایسے ہی فرشتہ صفت لوگوں کے بارے میں کسی شاعر نے کیاخوب
کہا ہے:
فرشتوں سے بہتر ہے
انسان ہونا
مگر اس میں پڑتی
ہے محنت زیادہ
یہ مؤمنین کاوہ گروہ ہے جن کے لیے ہر شے، واقعہ، بات بلکہ ہر گزرتا ہوالمحہ ان کی ولایت ، بزرگی، سعادت
میں اضافہ کرتا جاتاہے۔فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً(سورۃ النحل
:97)(پس ہم ضرور عطاکریں گے انہیں پاکیزہ زندگی)کی کیفیت رکھنے والے یہی
افراداولیاء اللہ کے نام سے موسوم کیئے
جاتے ہیں۔یہ اللہ رب العزت کے محبوب،پیارے، منتخب اورچنیدہ افراد ہوتے ہیں جوحق
ومعرفت کے پیغام اور رب العزت کےاحکام کو دنیا بھرمیں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ، اس
ہی گروہ کے ایک فرد علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمہ ہیں۔ آپ نے عرب وعجم ، پورب وپچھم (مشرق ومغرب)،
اتر ودکھن (شمال وجنوب) میں اسلام کا پیغام پہنچایا۔اسلام کی تبلیغ کے لیے آپ نے
اپنی قیمتی زندگی کے تقریباًچالیس سال یعنی چاردھائیاں حالت سفر میں گزاریں۔
اورایسا تاریخ ساز مشنری(تبلیغی) سفرکیا جو اس وقت تک کسی مسلمان مبلغ نے نہیں
کیاتھا۔آپؒ کے لیے حضرت علامہ ڈاکٹر محمد فضل الرحمن انصاری علیہ الرحمہ نے
فرمایا:
''دنیائے اسلام کو من حیث المجموع لیتے
ہوئے دورحاضر کے علمائے دین میں آپ وہ پہلے فرد ہیں جن کی بلند پرواز روحانیت
اورولولہ خدمت دین نے جغرافیائی قیود کو ایک جنبش عزم سے توڑ دیا۔''(خصوصی مجلہ
عظیم مبلغ اسلام، ص٦٢)
آپ
علیہ الرحمہ کی تخلیق ہوئی تو خاک سے ہی تھی لیکن آپ میں صفات فرشتوں کی سی تھی۔جس
طرح فرشتے ایسے نفوس قدسیہ ہیں جو جغرافیائی حدود سے پاک ومبرا ہوکر رب کی معرفت
میں مگن رہتے ہیں۔ اسی طرح آپ بھی رب کی معرفت ،ذکر اورپہچان میں مگن ایسے ہی
درویش تھے۔ جو علاقائی،لسانی اورمسلکی پہچان وحدودو قیود (مشرق و مغرب) سے آزاد ہو
کر کام کررہے تھے۔آپ کی پہچان دلّی، اصفہان وسمرقند سے نہیں بلکہ تبلیغ،تحریروتقریر
سے تھی۔ آپ کایہ کام پوری دنیامیں پھیلاہوا ہے۔ لہذا پوری دنیا ہی آپ کی پہچان اور
آپ کے لیے میدان کارزار بنی ہوئی تھی جہاں آپ اپنی تبلیغی مساعی جاری رکھے ہوئے
تھے ۔ آپ پرحضرت اقبال علیہ الرحمہ کا یہ اشعار صادق آتےہیں۔
فطرت نے
مجھے بخشے ہیں جوہرِملکوتی
خاکی ہوں مگرخاک
سے رکھتا نہیں پیوند
درو یش خدامست نہ
شرقی ہے نہ غربی
گھرمیرا نہ دلی نہ صفاہاں
نہ سمرقند
بالخصو
ص پسماندہ افریقی ممالک پر آپ نے خصوصی توجہ اورنظرِکرم فرمائی۔ وہ برّاعظم افریقہ
جہاں کے بہت سے خطے کبھی مسلمانوں کے زیرِ سایہ تھے ان کی وہاں حکومت قائم تھی لیکن مسلمانوں کی
شکست وریخت اور کفار کے ہاتھوں مغلوب ہوجانے
کے سبب یہاں کے لوگ آہستہ آہستہ اسلام سے ہی دورہوگئے تھے ۔یہاں تک کے بعض خطوں کے لوگ تو
اسلام کے نام تک سے واقف نہ تھے ۔شایداسی لیے وہاں پر علماء اورمبلغین کا جاناتک
نہ ہوتا تھا ۔آ پ ایسے علاقوں، خطوں،جنگلوں ، بیابانوں ، پہاڑوں ، صحراؤں میں بھی
گئے اور وہاں جاکرآپ نے لاکھوں لوگوں کو اسلام کے گم گشتہ تعارف سے آشنا کیا،
انہیں اسلامی تعلیمات سے سیراب کیا ا ور اخلاق عالیہ اوراوصاف حمیدہ کی آبیاری کی
اور ان کے اندر علم و یقین کے ایسے بیج بکھیرے جو آج تناور درخت بن کرافریقہ کے
صحراؤں دیہاتوں اورجنگلوں کے لوگوں کو علم و حکمت کے دریا سے سیراب کررہے ہیں ۔ ان
کے پتھروں اور ذروں کو قمر وماہتاب میں تبدیل کیا، جو وہاں جہالت کی ظلمت و تاریکی
کو علم کے نور و روشنی سے بدل رہے ہیں۔ بقول احسن عزیز:
افریقہ کے دشت
وجبل کو جب جب بھی سیراب کیا
علم ویقیں کے بیج
بکھیرے ، پتھروں کومہتاب کیا
حسب
ونسب:
حسب و
نسب اورخاندان کا بھی انسان کی ظاہری و باطنی شخصیت پر گہرا اثر مرتب ہوتاہے۔
احادیث نبویہ علیٰ صاحبہاالصلوٰۃ والتسلیم سے بھی یہ امر ثابت ہے۔جدید سائنس بھی
اس بات کی توثیق کرتی ہے کہ وراثت میں بچے کو اپنے اجداد سے اچھی وبری صفات منتقل
ہوتی ہیں ۔جنہیں ڈی این اے ٹیسٹ سے معلوم بھی کیاجاسکتا ہے۔
خاندانی پس منظر کے انسانی زندگی پراثرات کے متعلق جناب علامہ مفتی منیب الرحمٰن
صاحب اطال اللہ عمرہ فرماتے ہیں:
"انسانی خوبیوں میں اس کے خاندانی پسِ
منظر ،ماحول ،ذاتی محاسن کا بھی بڑادخل ہوتاہے، حدیث پاک میں ہے:لوگوں کی مثال کانوں
کی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ، ان میں سے جو زمانہ جاہلیت میں بہترتھے،
وہ اسلام سے مشرف ہونے کےبعد بھی دین کی سمجھ حاصل کرکے بہترثابت ہوئے،(صحیح
مسلم:2638)اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتاہے کہ ماحول ،پس منظر ،نسبی اور شخصی فضیلت
انسان کے جوہر قابل کو مزید نکھارتی ہے،صحابہ کرام اس کی روشن مثال ہیں۔"( اہل
دین کی آفات، علامہ مفتی منیب الرحمٰن صاحب،ماہنامہ الحق(اپریل مئی 2018)،ص37)
آپ کا
تعلق صدیقی خانوادہ سے ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب ٣٧ ویں پشت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتاہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مردوں میں سب سے
پہلے اسلام قبول کرنے والے شخص ہیں ۔حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے امت مسلمہ
پربے شمار احسانات ہیں۔حضور اکرم ﷺ کے اس فانی دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد
جب یہ امت فتنوں اورآزمائشوں میں مبتلاہوگئی، تب مسلمانوں کی تاریخ کے اس نازک موڑپر اکابرین صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم
اجمعین بھی موقع کی نزاکت کے اعتبار سے بروقت فیصلہ کرنے میں تامل وہچکچاہٹ
کامظاہرہ کررہے تھے ۔اس وقت یہ آپ ہی کی ذات بالاصفات تھی جنہوں نے بہت ہی زریں
اور سنہری فیصلے فرمائے ۔جنہیں پھول کی پتی کا قلم بنا کر ہیرے کے جگر پر آب زر سے
لکھا جائے تو بھی ان کی قدر وقیمت کو بیان نہیں کیاجاسکتا ۔
بڑھایا اس ادانے مرتبہ صدیق اکبر کا
کہ قرباں خدمت دین
نبی پر مال و زر ہو
حضرت
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مسیلمہ کذاب اوردیگر جھوٹے مدعیان نبوت کے داعیوں کے
خلاف جہاد کیا اور ان کی بیخ کنی اور شاید اسی وجہ سے اللہ رب العزت نے ان کے
خانوادے کوعظیم کام کے لیے چن لیا اوروقتاً فوقتاً اس خانوادے نے اسلام کی نشرو
اشاعت میں بے نظیر وبے مثال کردار ادا کیا ہے ۔جب بھی اسلام کو ضرورت پڑی اسی
خانوادے نے اپنا ایک فرد پیش کیا۔جس کی مثال خود حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی رحمۃ
اللہ علیہ کی بھی ہے جنہوں فتنۂ قادیانیت کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس کی بیخ کنی کے لیے مرآۃ القادیانیۃ اور
مرزائی حقیقت کا اظہار جیسی معرکۃ الآراء کتب تصنیف کیں اور اس کام (پاکستان میں
فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی)کی تکمیل آپ ہی کے صاحبزادے علامہ شاہ احمد نورانی علیہ
الرحمۃ کے ہاتھوں ہوئی۔انہوں نے بھی قادیانیوں کے عظیم فتنہ کے خلاف اپنی جان،مال
اورقلم سے وہ جہاد عظیم کیا جس کا ثمرہ ہمیں قادیانیوں کے کافرقرارپانے کی صورت
میں حاصل ہوا۔اسےمحض حسنِ اتفاق سے موسوم نہیں کیاجاسکتا بلکہ یہ صدیقی خون میں
شامل وہ حرارت اور شعلہ فشانی ہے جو ہر کذّاب (جھوٹے نبی)
کوجلاکرخاکسترکرتی آئی ہے اورکرتی رہے گی۔ (انشاء اللہ العزیز)
ولادت
باسعادت:
آپ کی
ولادت باسعادت ١٥ رمضان المبارک ١٣١٠ھ بمطابق ٣ ،اپریل ١٨٩٢ ء کو ہوئی۔یعنی سعید
ماہ و سال و دن۔یہ و ہی عظیم مہینے (یعنی ماہ رمضان،ماہ صیام،ماہ قرآن، ماہ قیام)
کا عظیم دن ہے جس میں سن ٣ ہجری کو شبیہ رسول،ریحانِ رسول، نواسۂ رسول ، لختِ جگر
حضرت علی وسیدہ بتول رضی اللہ تعالیٰ عنہما جناب حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی
عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ عظیم لوگوں کی زندگی کا آغاز ہی شاندار اور عظیم ہوتا
ہے۔ گویاکہ وہ پہلے ہی سے سعید ،خوش بخت،نیک ،اور عظیم کام کرنے کے لیے منتخب
ہوچکے ہوتے ہیں۔اس کے لیے یہ کہہ دینا ہی کافی ہوگا۔السعادۃ قبل الولادۃ(شرح
الاربعین النوویۃ)
(خوش بختی ولادت سے پہلے ہی عطاکردی جاتی ہے۔ اور العنایۃ قبل الولایۃ(شرح
الاربعین النوویۃ)
۔اورعنایت ولایت سے پہلے ہوتی ہے۔
Post a Comment