خوش طبع اور ظرافت
ایک پسندیدہ عمل ہے لیکن ظرافت اوردل آزاری کے مابین فرق ملحوظ رہنا چاہئے ۔ سادہ لفظوں
میں اگر کہاجائے کہ طنز کی بجائے مزاح کیا جائے جس سے کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں۔ مزاح
سے ایک خوشگواریت کا احساس دل میں پیداہوتاہے۔ اپنی وقتی دل لگی اور مسکراہٹ کے لئے
دوسروں کوتکلیف نہیں دینا چاہئے۔برٹرینڈ رسل کا قول ہے "اپنی خوشی کے لئے دوسروں کی مسرت خاک میں نہ ملاؤ۔"
تدریس انوار
آپ کو اردو،عربی اور انگریزی زبان پر مکمل عبور حاصل
ہے۔مطالعہ وسیع ہے۔ آپ کی بیشتر عمر تعلیم و تدریس میں گزری ۔طلباء کی نفسیات کا
گہرامطالعہ کیا ہے مزید برآں آپ کے اندر علم کی جامعیت اور ہمہ گیری ہے۔آپ اپنے
مخصوص میدان علوم اسلامیہ وعربیۃ یعنی تفسیر،حدیث، فقہ ،عربی ادب، اوربلاغہ کے
علاوہ عالمی معاشیات ، جغرافیہ،سیاست، تاریخ، سائنس کے بارے میں بھی گہرا علم
رکھتے ہیں۔ بالخصوص بیسویں اور اکیسویں صدی میں سائنسدانوں کی جدید تحقیقات نے نہ
صرف لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کیااور زندگی سہل، آسان،آرام دہ بلکہ پرتعیش
کردی ہے اوربلکہ اس کے ساتھ بعض قرآنی آیات کی تفسیر، تشریح وتوضیح میں بھی آسانی
پیدا کردی ہے۔آپ چونکہ تفسیرالقرآن کے ساتھ حدیث ، جغرافیہ،معاشیات پر گہری نظر
رکھتے ہیں اور سائنسی معلومات سے آگاہی رکھتے ہیں اس لئے آپ کا انداز تدریس بڑاہی
بلیغانہ، عالمانہ اور حکیمانہ ہے، آپ دوران تفسیر آیات کی تشریح جدید مثالوں کے
ذریعے کرتے ہیں اور جابجا ان تمثیلات وجدید تحقیقات کو بیان فرماتے ہیں ۔آپ صرف
کتاب نہیں پڑھاتے بلکہ عملی زندگی کے تجربات اور نچوڑ پیش کرتے ہیں جو صرف کتابوں
سے حاصل نہیں کیاجاسکتا۔ آپ دوران تدریس خود بھی انتہائی محبت و شفقت سے مسکراتے
ہوئے اس امرکا اظہار فرماتے: لا تسمعون من آخر اسمعوا من
انوار۔ یعنی توجہ سے سنو یہ بات تم صرف انوار(استاذ محترم)
سے سنو گے اس کے علاوہ اور کہیں نہ پاؤ گے۔
آپ سوالات کے جوابات بھی نہایت تحمل و بردباری سے
دیتے ہیں اورطلبہ کے سوال کا مقصد سمجھتے ہوئے جواب دیتے اورانہیں تمام سوالات میں
مطمئن کردیتے ہیں ۔ اور بعض اوقات انتہائی کڑوے ، تلخ،تند وتیز سوالات کے جواب میں بھی تحمل مزاجی،خوش گفتاری کا مظاہرہ
کرتے بقول شاعر:
تجھ سا تو خوش فکر وگفتار دیکھا ہی نہیں
آپ لیکچر ہمیشہ عربی زبان میں دیتے لیکن بعض اوقات
آپ دوران تدریس انگریزی الفاظ بھی استعمال کرتے۔ جس سے آپ کی تدریس مزید دلچسپ اور
مؤثر ہوجاتی اوربعض اوقات ان سے ظریفانہ پہلو بھی نکلتا اور طلباء زیادہ توجہ اور
انہماک سے آپ کی جانب متوجہ ہوجاتے۔ جوکہ آپ کا اصل مقصد وغرض وغایت ہوتی ہے کہ
طلباء مکمل یکسوئی سے آپ کا لیکچر سنیں ۔
درس و تدریس کی دنیا سے ہٹ کربھی آپ بڑی پیاری عادات
و خصائل کے انسان ہیں ۔ آپ کا علم بڑا حاضرہے اورآپ حاضر جواب اور نہایت اچھے مقرر
ہیں ۔ طلبہ کے دیگر مسائل و پریشانیوں میں بھی ہرممکن مددوتعاون کرتے ہیں ۔
تحریر انوار
علامہ انوار صاحب کی تحریر میں روانی ، سادگی اور
سلاست پائی جاتی ہے۔آپ تکلف، تصنع کو پسند نہیں فرماتے آپ اپنی عبارت کو مقفیٰ
ومسجع کرکے نہیں پیش کرتے بلکہ صاف اور سادہ طریقہ سے اپنا اصل مدعا ، مقصد اور
مفہوم بیان کرتے ہیں ۔آپ کا اصل مقصد خالصتاً تعلیم و تربیت ہے جو آپ ہمہ وقت پیش
نظر رکھتے ہیں ۔اور یہی عنوان یعنی بسلسلہ تعلیم و تربیت آپ نے اپنی تصانیف کو دیا
ہے۔
تذکرۃ القرآن کی تالیف و تدوین جامعیت علوم کے لحاظ
سے خوشگوار نمونہ ہے۔ جس میں آپ نے ترکیب نحوی،تحقیق صرفی ،عربی لغت کے ساتھ ساتھ
بامحاورہ اور سلیس مفہوم سب یکجا کردیئے ہیں۔ الغرض اس مفہوم قرآن کا علمی تحقیقی
انداز دوسری اردو کتب تفاسیر سے اسے ممتاز کرتاہے۔
آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کاایک اورمنہ بولتا ثبوت ایک کلینڈر
کی ترتیب ،تزئین وتالیف ہے ۔آپ نے تاریخ وارایسا ٹیبل کلینڈر ترتیب دیا ہے کہ اس
تاریخ کوصبح صادق،انتہائے سحر،طلوع آفتاب ، زوال آفتاب ،وقت عصر،غروب آفتاب ،وقت
افطار اور وقت عشاء کو بخوبی اوربآسانی معلوم کیا جاسکتاہے۔ اس کے لئے صفحہ بدلنے
کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ انسان جو بھی تاریخ ہوگی اس صفحہ پر دیئے گئے مہینے میں
دیکھے ۔مزید اسی کلینڈر کی پشت پر آپ نے تعارف قرآن،رہنمائے اوقات نمازاوردیگر
اخلاقی،سائنسی اوراسلامی موضوعات پر کل 31 صفحات تحریرکیے ہیں جو اصلاح احوال،حسن
معاشرت کے ساتھ ساتھ بیش بہا علمی ذخیرہ بھی ہیں۔
نیز آپ نے قرآن مجید کے آخری پاروں کی سورتوں کا بہت بلیغ
اورجامع خلاصہ بھی تحریر کیا تھا جو راقم نے ہی کمپوز کیا تھا۔لیکن بدقسمتی سے اس
کی سوفٹ اور ہارڈ کاپی دونوں ہی ضائع ہوگئیں۔اوروہ منصۂ شہود پر نہ آسکیں۔
خطابت انوار
اللہ رب العزت نے آپ کو فن تقریر وخطابت کی صلاحیت
سے بھی مالا مال کیا ہے۔ آپ فن تقریرو خطابت میں بھی اپنے انوار بکھیر رہے ہیں
۔ویسے بھی جس مسجد میں آپ خطابت فرماتے ہیں اس کا نام جامع مسجد نور ہے۔ یعنی خطیب
انوار،مقام خطابت نور یقینا اس مسجد میں آپ کے سامعین بھی منور اور منیر ہوں گے۔آپ
عام اور روایتی انداز سے رٹے رٹائے خطبات سے ہٹ کر خطبہ ارشاد فرماتے ہیں ۔ آپ جو
جمعہ کے سلسلے میں اردو تقریر فرماتے ہیں اسی تقریر کا لب لباب اور خلاصہ عربی
زبان میں بطور خطبہ پیش کرتے ہیں ۔ جس سے آپ کے غیرعالم سامعین بھی کافی حدتک عربی
خطبہ سمجھ جاتے ہیں ۔
سیاحت انوار
آپ نے دنیا کے کئی براعظموں یعنی ایشیا، افریقہ،
امریکا اور یورپ کا سفر کیا ہے۔ آپ کا یہ سفر بغرض تبلیغ تھایعنی اپنے مرشد کریم
سے فیض لے کر دیگر مقامات پر پہنچانے کے لئے تھا تاکہ وہاں کے لوگوں تک اسلام کا
پیغام پہنچائیں اورانہیں ایمان سے سیراب کریں ۔ جس طرح بادل سمندروں سے پانی لے کر
ان جگہوں کو سیراب کرتے ہیں جہاں ان کے بغیر پانی پہنچانے کا اورکوئی ذریعہ نہیں
اسی طرح آپ دین کا پیغام لے کر دنیا کے ان خطوں کی جانب گئے تاکہ وہاں کی سرزمین کو
بھی سیراب کیاجائے ۔
ڈاکٹرفضل الرحمٰن انصاری علیہ الرحمۃ سے آپ
کا تعلق
ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمۃ کی ذات میں اتنی کشش
وجاذبیت تھی جو بھی ایک دفعہ آپ کی طرف آجاتاوہ آپ کا ہی ہوکر رہ جاتا جس کی ایک
مثال علامہ ابومحمد فہیم انوار اللہ خان صاحب ہیں۔آپ جب ایک دفعہ ان سے ملے تو پھر
آپ نے اپنی پوری زندگی ان کے مشن ومقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں صرف کردی گویا
کہ ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کی سحر انگیز شخصیت نے آپ کو بے دام و بن قیمت خرید
لیا اور آپ کو خرید کر انمول کردیا آپ پر یہ شعر صادق آتا ہے۔
جب تک بکے نہ تھے کوئی
پوچھتانہ تھا
تم نے خرید کر ہمیں انمول
کردیا
ظرافت انوار
اس دنیائے فانی میں انسان پر خوشی وغمی ،فرحت و رنج،
شادمانی و غم ،سرور و بے کیفی، خوشحالی و عسرت، صحت و مرض،غناء و فقر،انبساط و انقباض،سختی
و نرمی راحت و بے آرامی، اور خلوت وجلوت الغرض ہر طرح کی حالت وکیفیت طاری ہوتی
ہے۔ بعض اوقات حالات اتنے دگرگوں اور ناقابل برداشت ہوجاتے ہیں کہ کمزوردل افراد
ایسے میں شکستہ دل اور کبیدہ خاطر ہوجاتے ہیں لیکن آپ کے چہرے پرایسے حالات میں
بھی اکثر مسکراہٹ سجی رہتی ہے ۔
حوادث میں الجھ کر مسکرانا
میری فطرت ہے
مجھے دشواریوں میں اشک
برسانا نہیں آتا
آپ خوش طبع اور ظرافت پسند ہیں ۔آپ ظرافت اوردل
آزاری کے فرق سے بحسن وخوبی آگاہ ہیں ۔ سادہ لفظوں میں اگر کہاجائے کہ آپ طنز کی
بجائے مزاح کرتے ہیں جس سے کسی کے جذبات مجروح ہونے کے بجائے ایک خوشگواریت کا
احساس دل میں پیداہوتاہے۔آپ اپنی مسکراہٹ کے لئے دوسروں کوتکلیف نہیں دیتے بلکہ آپ
کی ظرافت سے پوری محفل زعفران زار ہوجاتی ہے۔آپ کے ظریفانہ واقعات سے جامعہ کی
تاریخ بھری ہوئی ہے۔
1۔ ایک دفعہ جغرافیہ کے
موضوع پر ایک خصوصی فورم کا انعقاد کیاگیا جس میں جناب پروفیسر عبداللطیف صاحب
(مرحوم) نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ مسلسل جغرافیے کے موضوع پر خطاب کیا۔ان کے خطاب کے
بعد جب علامہ ابوفہیم انوارللہ خان صاحب مائیک پر تشریف لائے تو آپ نے خطبہ کے بعد
یہ آیت تلاوت فرمائی:"وما اوتیتم من العلم الاقلیلا" یہ سن کر سامعین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوگئی
کیونکہ آپ نے جس موقع کی مناسبت سے یہ آیت تلاوت فرمائی اس کے دو مفہوم نکلتے تھے۔
ایک تو یہ کہ جغرافیہ کا موضوع اتنا وسیع سمندر ہے جسے ڈیڑھ دو گھنٹوں میں سمیٹا
نہیں جاسکتا اوردوسرااس سے مزاح کا پہلو بھی نکلتا تھا کہ مقرر نے جغرافیہ کے
موضوع پر بہت کم لب کشائی کی ہے۔ آپ چونکہ جغرافیہ کے ماہر ہیں بلکہ آپ میں تو یہ
خصوصیت بھی بدرجہ اتم موجود ہے کہ آپ آنکھیں بند کرکے گلوب پر کہیں بھی انگلی
رکھیں تو صحیح جگہ بتادیتے ہیں۔ اگرچہ ان کا لیکچرجغرافیہ سے نابلد افراد کے لئے
نعمت غیرمترقبہ تھا اور انہوں نے ان حضرات کوہی مد نظر رکھتے ہوئے اپنا لیکچر
ترتیب دیاتھا لیکن استاذ محترم کے علم کو سامنے رکھتے ہوئے تو مقرر نے جتنا بھی
بولا وہ واقعی کم تھا جس کا بعد میں مقرر نے خود اعتراف کیا کہ ہمیں خود حضرت صاحب
سے فیض حاصل کرناچاہئے ۔
2۔ آپ درس وتدریس میں کسی بھی قسم کوئی
رکاوٹ برداشت نہیں کرتے ۔ کوئی ایسا کام نہ ہونے دیتے جس سے طلباء کی تعلیم کا حرج
ہو۔ بالخصوص اضافی چھٹیوں کے تو آپ ویسے بھی خلاف ہیں۔ جس طرح ہماری حکومتیں چھٹی
دینے کے معاملے میں بہت فیاض واقع ہوئی ہیں۔ کہ کبھی میچ کی چھٹی ،کبھی بارش کی
چھٹی ،کبھی الیکشن کے نام پر اس طرح مختلف حیلوں بہانوں سے ہماری حکومتیں بہت سی
غیر اہم اورغیر متوقع چھٹیوں کا اعلان کرتی ہی رہتی ہیں ۔ آپ ایسی چھٹیوں کے موقع
پر طلباء کی تعلیم میں حرج سے بچنے کے لئے ادارہ کو بندرکھنے کا اعلان نہیں فرماتے
تھے۔ ایک دفعہ حکومت سندھ نے کراچی میں پاکستان انڈیا کے کرکٹ میچ کے سلسلے میں
چھٹی کا اعلان کیا۔جب طلباء نے اس چھٹی کے دیئے جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپ
نے ازراہ تفنن فرمایا:
سال کے ۳۶۵ دن یعنی پورے سال کا ایک کلینڈر مرتب کرلیا جائے
کیونکہ ہرروز ہی کسی نہ کسی عظیم شخصیت کا یوم ولادت یا یوم وصال ہوگا یا اس دن
کوئی اہم واقعہ رونما ہوا ہوگا ۔اس طور کسی نہ کسی کے نام پر پورا سال چھٹی منائی
جاتی رہے اور درس و تدریس دیگر کام بالکل ترک کردینےچاہئیں۔آپ نے یہ تمام اس خاص
پیرائے اورلہجہ میں فرمایا کہ ارد گردموجود تمام اسٹاف اورطلبہ کے ہونٹوں پر بے
ساختہ مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔
3۔ جب ایک بار آپ کے علم میں لایا گیا کہ
ایک طالب علم نے دوران تعلیم ہی باقاعدہ مفتی کی مہر بنالی جسے وہ استعمال بھی
کرتاہے تو آپ نے فرمایا کہ(مولوی عجولاً) یعنی انسان جلد باز واقع ہواہے۔وہ درخت
لگاتے ہی پھل کھانا چاہتا ہے اور اس کے لئے کی جانے والی محنت کے لئے تیار نہیں۔وہ
کوئی بھی کام شروع کرتا ہے تو اس کا نتیجہ فوراً دیکھنا چاہتا ہے جب کہ وہ یہ
قرآنی فلسفہ بھول جاتا ہے کہ قرآن مجید میں رب کائنات نے کن فیکون کہا کن فکان
نہیں۔کہ اس نے کہا ہوجا تو وہ ہونے لگتا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہوجا تو ہوگیا۔مثلاً اگر
کوئی شخص کھجور کا درخت لگاتا ہے تو اس کے لئے کم وبیش دس سال کا عرصہ گزرتا ہے تب
جا کر وہ پودا ایک تنومند درخت بنتا ہے اورپھل دینا شروع کرتاہے۔پہلے ہی دن
یاابتدائی چند دنوں کے بعد اس سے پھل حاصل کرنے کی خواہش تو ہوسکتی ہے حقیقت
نہیں۔اس کے لئے وہی مخصوص دورانیہ گزارنا ہی لازم ہے ۔یہی فلسفہ دیگر شعبہ ہائے زندگی
مثلاً تعلیم و تربیت، اصلاح احوال و نفس، تعمیر ملک و سلطنت وغیرہ میں بھی کار
فرما ہوتا ہے۔ جسے صبر اور جہد مسلسل سے ہی حاصل کیاجاسکتاہے۔یہ تمام مرحلے ایک دن
یا ایک ہفتے میں طے نہیں کئے جاسکتے۔جس سے عمومی طورپر لوگ صرف نظرکرتے ہیں۔
یہاں دومزید واقعات کا تذکرہ کیا جارہاہے جو خود
راقم کے ساتھ پیش آئے۔
جب راقم ابتدائی کلاس میں تھا ایک بار کسی طالب علم
سے تکرار ہوگئی۔ معاملہ استاذ صاحب کے علم میں آیا تو آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا انظروا الی المجاھد الصغیر۔ اس چھوٹے مجاہد کی طرف دیکھو!
جب راقم نے جامعہ میں تدریس کاآغاز کیا تو ابتدائی
دنوں میں کچھ طلباء کے امور آپ کی خدمت عالیہ میں پیش کئے اور عرض کیا کہ
''سر''چند بچے آپ کے پاس درخواست لائیں ہیں ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:''کم طفلالک؟''تمہارے کتنے بچے ہیں ! اس
واقعہ کے بعد راقم نے طلباء کو لفظ بچے کہنے سے احتراز کیا اور ''طلباء ''کا لفظ
استعمال کرناشروع کیا۔
Post a Comment